جو میری حالت پہ ہنس رہے ہیں مجھے کچھ ان سے گلا نہیں ہے
وہ نا سمجھ ہیں سمجھ رہے ہیں کہ جیسے میرا خدا نہیں ہے
خلوص ادھر بھی ہو اور ادھر بھی تو دل سے پھر دل جدا نہیں ہے
میں ان کو چاہوں وہ مجھ سے روٹھیں کبھی تو ایسا ہوا نہیں ہے
جھکائیے دل کو سر سے پہلے کہ لطف حاصل ہو زندگی کا
نہ ہو اگر عجز بندگی میں تو بندگی کا مزا نہیں ہے
برائیاں ہی برائیاں ہیں برائیوں کا جہاں ہے سارا
بروں سے دامن بچائیں کیوں کر بروں کے دامن میں کیا نہیں ہے
یہ میں نے مانا کہ زندگی میں حوادثات جہاں بھی کچھ ہیں
مگر ہے مجھ پر کرم بھی ان کا نصیب میرا برا نہیں ہے
نظام دنیا بدل ہی دے گی اسے سمجھنا ندائے غیبی
صدائے تکبیر جو ہماری ہے یہ ہماری صدا نہیں ہے
گل و شجر پر ہے مردنی سی فضا پہ چھایا ہوا ہے ماتم
یہ تجھ کو کیا ہو گیا ہے بلبل جو آج نغمہ سرا نہیں ہے
پتہ ہی ملتا نہیں کچھ اس کا ہمیں تو بازار زندگی میں
تو کیا جہان خراب میں اب کہیں بھی جنس وفا نہیں ہے
جہاں سے ہے رابطہ جہاں تک جہاں ہمارا جہاں کے دم ہیں
یہ کیسے کہہ دیں کہ زندگی میں کسی سے کچھ واسطہ نہیں ہے
ہجوم عصیاں سے کچھ نہیں ڈر سمجھ چکا ہوں بہ روز محشر
ہے اس کی رحمت کا سایہ سر پر تو کیوں کہوں آسرا نہیں ہے
جو آ ہی بیٹھا ہے آج خوشترؔ تو ہو کے جائے گا خوش سے خوش تر
تمہارے در سے اٹھے یہ کیوں کر ابھی تو دامن بھرا نہیں ہے
غزل
جو میری حالت پہ ہنس رہے ہیں مجھے کچھ ان سے گلا نہیں ہے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی