جو میرے تنگنائے دل میں تجھ کو جلوہ گر دیکھا
مری نظروں نے حیرت سے مجھی کو عمر بھر دیکھا
تصور کی حدوں میں بھی سمانا جن کا مشکل تھا
نظر والوں نے ان جلووں کو تا حد نظر دیکھا
سب اپنے دل میں اک تیر نظر محسوس کرتے ہیں
مگر کوئی بتا سکتا نہیں اس نے کدھر دیکھا
تعین بر طرف مقصود مجھ کو سجدہ کرنا تھا
نہ ہم نے رہ گزر دیکھی نہ ہم نے سنگ در دیکھا
نظر آتا نہ تھا جو گرد افکار و حوادث میں
وہ ساحل آنکھ نے طوفان غم میں ڈوب کر دیکھا
تمہارے سنگ در کو سنگ در میں کس طرح سمجھوں
کہ جب سجدہ کیا سر کو جبین عرش پر دیکھا
عجب منزل تھی اے سیمابؔ اپنی منزل ہستی
نہ موقع تھا ٹھہرنے کا نہ یارائے سفر دیکھا
غزل
جو میرے تنگنائے دل میں تجھ کو جلوہ گر دیکھا
سیماب اکبرآبادی