EN हिंदी
جو محو حالات نہیں ہے | شیح شیری
jo mahw-e-haalat nahin hai

غزل

جو محو حالات نہیں ہے

ساجد صدیقی لکھنوی

;

جو محو حالات نہیں ہے
ایسی کوئی ذات نہیں ہے

تم نے ملا کر پھیر لیں نظریں
جاؤ کوئی بات نہیں ہے

حسن سمجھ لے عشق کی منزل
اتنی معلومات نہیں ہے

سورج ابھرے چاہے ڈوبے
ان کے جہاں میں رات نہیں ہے

میرے ہی دل نے مجھ کو مٹایا
اس میں کسی کا ہات نہیں ہے

بکھرے ہوئے ہیں ان کے گیسو
رات نہ کہئے رات نہیں ہے

کلیاں تک چن لیتا ہے گلچیں
آگاہ جذبات نہیں ہے

اشکوں پہ میرے ہنسنے والے
پھولوں کی برسات نہیں ہے

ترک وفا توہین وفا ہے
میری ان کی بات نہیں ہے

بھیگ چکا ان کا پھر دامن
اور ابھی برسات نہیں ہے

ان سے بچھڑ کر بھی خوش خوش ہوں
جیسے کوئی بات نہیں ہے

کون سا میرا اشک ندامت
آئنۂ جذبات نہیں ہے

ساجدؔ اہل دل نے بتایا
عام ہماری بات نہیں ہے