EN हिंदी
جو لطف مے کشی ہے نگاروں میں آئے گا | شیح شیری
jo lutf-e-mai-kashi hai nigaron mein aaega

غزل

جو لطف مے کشی ہے نگاروں میں آئے گا

ساحر لدھیانوی

;

جو لطف مے کشی ہے نگاروں میں آئے گا
یا با شعور بادہ گساروں میں آئے گا

وہ جس کو خلوتوں میں بھی آنے سے عار ہے
آنے پہ آئے گا تو ہزاروں میں آئے گا

ہم نے خزاں کی فصل چمن سے نکال دی
ہم کو مگر پیام بہاروں میں آئے گا

اس دور احتیاج میں جو لوگ جی لئے
ان کا بھی نام شعبدہ کاروں میں آئے گا

جو شخص مر گیا ہے وہ ملنے کبھی کبھی
پچھلے پہر کے سرد ستاروں میں آئے گا