EN हिंदी
جو لوگ رہ گئے ہیں مری داستاں سے دور | شیح شیری
jo log rah gae hain meri dastan se dur

غزل

جو لوگ رہ گئے ہیں مری داستاں سے دور

سرور نیپالی

;

جو لوگ رہ گئے ہیں مری داستاں سے دور
کچھ اس جہاں سے دور ہیں کچھ اس جہاں سے دور

ہر داستان غم ہے مری داستاں سے دور
جیسے کہ کوئی قیس ہو آہ و فغاں سے دور

تو گر نہیں ہے پاس تو کیا رنج مجھ کو ہے
یہ زندگی کہاں ہے تری داستاں سے دور

جب تک ترے وصال کی صورت نہیں کوئی
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور

ہے تیری کہکشاں بھی مری کہکشاں کے پاس
تیرا فلک کہاں ہے مرے آسماں سے دور

ہر سانس اس کے پیار کو سجدہ کئے گیا
سرورؔ کبھی رہا ہی نہیں اپنی ماں سے دور