جو لمحے ٹوٹ چکے ان کو جوڑتے کیوں ہو
یہ جڑ گئے تو انہیں پھر سے توڑتے کیوں ہو
مزاج شمس بدل جائے گا تو کیا ہوگا
جو ذرے سوئے ہیں ان کو جھنجھوڑتے کیوں ہو
کب آنسوؤں سے مٹا ہے شگاف آئینہ
جو شیشہ ٹوٹ چکا اس کو جوڑتے کیوں ہو
یہ ریت ہے یہاں مٹ جائیں گے تمام نقوش
تم اپنا نقش قدم اس پہ چھوڑتے کیوں ہو
تمہاری سمت زمانہ بالآخر آئے گا
تم اپنی فکر کی سمتوں کو موڑتے کیوں ہو
تمہاری آنکھوں نے بخشی ہے گل کو نمکینی
تم اپنی آنکھوں میں جلوے نچوڑتے کیوں ہو
کرامتؔ ایسے میں سانسوں کا حال کیا ہوگا
سسکتے لمحوں کی گردن مروڑتے کیوں ہو
غزل
جو لمحے ٹوٹ چکے ان کو جوڑتے کیوں ہو
کرامت علی کرامت