جو کچھ نمایاں ہوا الاماں معاذ اللہ
تلطف و کرم دوستاں معاذ اللہ
کہے گی وہ نگۂ اعتماد آگیں کیا
کھلیں گی جب مری عیاریاں معاذ اللہ
وہ راہ عشق میں دل کی مآل اندیشی
وہ میری عقل کی نادانیاں معاذ اللہ
پھر ان کے لطف کا موسم پلٹ کے آئے گا
تخیلات کی گل کاریاں معاذ اللہ
یہ مے کدہ تو نہیں یہ تو صحن مسجد ہے
یہ آ گیا میں کہاں سے کہاں معاذ اللہ
کبھی تھا دار وفا کوئے عشق اور اب ہے
قمار خانۂ سود و زیاں معاذ اللہ
نظیرؔ قصۂ زخم نہاں کہوں کس سے
یہ داستاں ہے بہت خونچکاں معاذ اللہ
غزل
جو کچھ نمایاں ہوا الاماں معاذ اللہ
نظیر مظفرپوری