جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
عالم تمام ایک طلسم وجود ہے
آرائش نمود سے بزم جمود ہے
میری جبین شوق دلیل سجود ہے
ہستی کا راز کیا ہے غم ہست و بود ہے
عالم تمام دام رسوم و قیود ہے
عکس جمال یار سے وہم نمود ہے
ورنہ وجود خلق بھی خود بے وجود ہے
اب کشتگان شوق کو کچھ بھی نہ چاہیئے
فرش زمیں ہے سایۂ چرخ کبود ہے
ہنگامۂ بہار کی اللہ رے شوخیاں
زاغ و زغن کا شور بھی صوت و سرود ہے
غزل
جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
فرحت کانپوری