EN हिंदी
جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے | شیح شیری
jo kuchh bhi hai nazar mein so wahm-e-numud hai

غزل

جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے

فرحت کانپوری

;

جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
عالم تمام ایک طلسم وجود ہے

آرائش نمود سے بزم جمود ہے
میری جبین شوق دلیل سجود ہے

ہستی کا راز کیا ہے غم ہست و بود ہے
عالم تمام دام رسوم و قیود ہے

عکس جمال یار سے وہم نمود ہے
ورنہ وجود خلق بھی خود بے وجود ہے

اب کشتگان شوق کو کچھ بھی نہ چاہیئے
فرش زمیں ہے سایۂ چرخ کبود ہے

ہنگامۂ بہار کی اللہ رے شوخیاں
زاغ و زغن کا شور بھی صوت و سرود ہے