جو کوئی کہ یار و آشنا ہے
رخصت کی مری اسے دعا ہے
کیا بیٹھا ہے راہ میں مسافر
چلنا ہی یہاں سے پیش پا ہے
امروز جو ہو سکے سو کر لے
فردا کی خبر نہیں کہ کیا ہے
معشوق تو بے وفا ہیں پر عمر
ان سے بھی زیادہ بے وفا ہے
دنیا میں تو خوب گزری حاتم
عقبیٰ میں بھی دیکھیے خدا ہے
غزل
جو کوئی کہ یار و آشنا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم