جو خواب میرے نہیں تھے میں ان کو دیکھتا تھا
اسی لیے آنکھ کھل گئی تھی اسی لیے دل دکھا ہوا تھا
اداسیوں سے بھری ہوئی التجا سنی تھی
کسی نگر میں کوئی کسی کو پکارتا تھا
وہ اک صدا تھی کہ ہفت عالم میں گونجتی تھی
نہ جانے کیسے کوئی کسی سے بچھڑ گیا تھا
عجیب حیرت بکھیرتے تھے وہ داستاں گو
کہ شب نے جانے سے صاف انکار کر دیا تھا
گزشتگاں کو بھی یہ گلہ تھا سنا ہے میں نے
سنا ہے ان کو بھی اسم اعظم نہیں ملا تھا
فضا سنہری تھی رنگ پھیلا تھا چار جانب
کہ چاند سے وہ زمیں پہ جیسے اتر رہا تھا
سفر کے آخر پہ شمعیں روشن سی ہو گئی تھیں
کوئی مسرت کی سب حدوں سے گزر گیا تھا
غزل
جو خواب میرے نہیں تھے میں ان کو دیکھتا تھا
صابر وسیم