EN हिंदी
جو خط ہے شکستہ ہے جو عکس ہے ٹوٹا ہے | شیح شیری
jo KHat hai shikasta hai jo aks hai TuTa hai

غزل

جو خط ہے شکستہ ہے جو عکس ہے ٹوٹا ہے

حفیظ بنارسی

;

جو خط ہے شکستہ ہے جو عکس ہے ٹوٹا ہے
یا حسن ترا جھوٹا یا آئنہ جھوٹا ہے

ہم شکر کریں کس کا شاکی ہوں تو کس کے ہوں
رہزن نے بھی لوٹا ہے رہبر نے بھی لوٹا ہے

یاد آیا ان آنکھوں کا پیمان وفا جب بھی
ساغر مرے ہاتھوں سے بے ساختہ چھوٹا ہے

ہر چہرے پہ لکھا ہے اک قصۂ مظلومی
بے درد زمانے نے ہر شخص کو لوٹا ہے

منزل کی تمنا میں سر گرم سفر ہیں سب
کون اس کے لیے روئے جو راہ میں چھوٹا ہے

اللہ رے حفیظؔ اس کا یہ ذوق خود آرائی
جب زلف سنواری ہے اک آئنہ ٹوٹا ہے