جو کشمکش تھی ترا انتظار کرتے ہوئے
جھجک رہا ہوں اسے آشکار کرتے ہوئے
کسیلی دھوپ کی شدت کو بھی نظر میں رکھو
کسی درخت کو بے برگ و بار کرتے ہوئے
گزشتہ سال کی آفات کب خیال میں تھیں
نشیمنوں کو سپرد بہار کرتے ہوئے
کسی نے اپنے گریباں میں کیا تلاش کیا
ہمارے رقص وفا کا شمار کرتے ہوئے
ہوا کے پانو بھی شل ہو کے رہ گئے اکثر
ترے نگر کی فصیلوں کو پار کرتے ہوئے
یہی ہوا کہ سمندر کو پی کے بیٹھ گئی
ہماری ناؤ سفر اختیار کرتے ہوئے
اسی کے واسطے سلطانؔ بے قرار ہیں ہم
جسے قرار ملے بے قرار کرتے ہوئے

غزل
جو کشمکش تھی ترا انتظار کرتے ہوئے
سلطان نظامی