جو جہاں کے آئنہ ہیں دل انہوں کے سادہ ہیں
دل میں جا دینے کو وہ ہر ایک کے آمادہ ہیں
قتل سے عاشق کے تو نے اب تو کھائی ہے قسم
آخر اے قاتل یہ باتیں پیش پا افتادہ ہیں
کل کے دن جو گرد مے خانے کے پھرتے تھے خراب
آج مسجد میں جو دیکھا صاحب سجادہ ہیں
بند میں مطلق جو مجھ کو خطرۂ صیاد ہو
ہوں اسیر دام پر وضعیں مری آزادہ ہیں
راہ پیمایان اقلیم عدم سے یادگار
دامن صحرا میں اب باقی نقوش جادہ ہیں
چشم ساقی کے لیے ہیں تیغ ابرو دوش پر
لگ نہ چل ان سے بقاؔ یہ ترک مست بادہ ہیں
غزل
جو جہاں کے آئنہ ہیں دل انہوں کے سادہ ہیں
بقا اللہ بقاؔ