جو عشق میں گزارہ لمحہ پسند آیا
آنکھوں میں بس گیا جو چہرہ پسند آیا
یوں تو سفر کیا ہے کتنے ہی راستوں پر
لیکن ترے ہی گھر کا رستہ پسند آیا
میری نگاہ میں ہے تیری تلاش باقی
میری دیوانگی کو صحرا پسند آیا
بے شک نبھا نہ پائے وعدہ کیا جو تم نے
لیکن صنم تمہارا وعدہ پسند آیا
اٹھتی ہے اس لیے بھی تیری طرف نگاہیں
تیرے حسین رخ پر چشمہ پسند آیا
غصے میں لگ رہی ہو تم اور خوبصورت
دل کو بہت تمہارا نخرہ پسند آیا
کچھ اور دیکھنے کی حسرت رہی نہ باقی
جب سے صنم تمہارا چہرہ پسند آیا
ہو جائے گی مکمل اب تو غزل یقیں ہے
تیرے حسیں لبوں کا مصرعہ پسند آیا
بے شک بہت شکایت تجھ کو ہے اس جہاں سے
پھر بھی احدؔ یہ تیرا لہجہ پسند آیا
غزل
جو عشق میں گزارہ لمحہ پسند آیا
امت احد