EN हिंदी
جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ | شیح شیری
jo is zamin pe rahte the aasman se log

غزل

جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ

شاہد کمال

;

جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ
کہاں گئے وہ مرے سارے مہربان سے لوگ

یہ بے چراغ سی بستی یہ بے صدا گلیاں
ہر ایک سمت یہ اجڑے ہوئے مکان سے لوگ

سر نوشتۂ تقدیر خواب کی صورت
لکھے ہیں ریت پہ کچھ حرف رائیگان سے لوگ

کہ یہ اثر تو نہیں ان کی فاقہ مستی کا
پھر آج تنگ ہوئے ہیں جو اپنی جان سے لوگ

کچھ اس میں حسب ضرورت کئے گئے شامل
کچھ ہم نے حذف کئے اپنی داستان سے لوگ

ابھی نہ ختم ہوا تھا فسانۂ ہستی
گریز کرنے لگے اپنے درمیان سے لوگ

پڑی ہے ریت پہ ٹوٹی ہوئی وہ کشتیٔ خاک
کہ اڑ رہے ہیں ہواؤں میں بادبان سے لوگ

تجھے تو اپنی ہی جاں کی پڑی ہوئی ہے کمالؔ
گزر رہے ہیں یہاں پر کس امتحان سے لوگ