جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ
کہاں گئے وہ مرے سارے مہربان سے لوگ
یہ بے چراغ سی بستی یہ بے صدا گلیاں
ہر ایک سمت یہ اجڑے ہوئے مکان سے لوگ
سر نوشتۂ تقدیر خواب کی صورت
لکھے ہیں ریت پہ کچھ حرف رائیگان سے لوگ
کہ یہ اثر تو نہیں ان کی فاقہ مستی کا
پھر آج تنگ ہوئے ہیں جو اپنی جان سے لوگ
کچھ اس میں حسب ضرورت کئے گئے شامل
کچھ ہم نے حذف کئے اپنی داستان سے لوگ
ابھی نہ ختم ہوا تھا فسانۂ ہستی
گریز کرنے لگے اپنے درمیان سے لوگ
پڑی ہے ریت پہ ٹوٹی ہوئی وہ کشتیٔ خاک
کہ اڑ رہے ہیں ہواؤں میں بادبان سے لوگ
تجھے تو اپنی ہی جاں کی پڑی ہوئی ہے کمالؔ
گزر رہے ہیں یہاں پر کس امتحان سے لوگ

غزل
جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ
شاہد کمال