جو اس طرح لیے پھرتا ہے جاں ہتھیلی پر
وہ دیکھنا کبھی جاں سے گزر ہی جائے گا
خیال ہے کوئی اڑتا ہوا پرند نہیں
جہاں بھی جائے گا بے بال و پر ہی جائے گا
یہ آسماں جو ازل سے سوا رہے مجھ پر
یہ بوجھ بھی کہیں سر سے اتر ہی جائے گا
میں اس کا چاہنے والا ہوں کوئی غیر نہیں
وہ میرے سامنے آ کر نکھر ہی جائے گا
وہ کب کہے گا کہ میں نے لگائی تھی یہ آگ
وہ جب بھی سامنا ہوگا مکر ہی جائے گا
کھلا ہوا ہے نظر میں گل خیال کوئی
خلیلؔ آنکھ جو جھپکی بکھر ہی جائے گا
غزل
جو اس طرح لیے پھرتا ہے جاں ہتھیلی پر (ردیف .. ا)
خلیل رامپوری