EN हिंदी
جو حسن و عشق سے امن و اماں میں رہتے ہیں | شیح شیری
jo husn-o-ishq se amn-o-aman mein rahte hain

غزل

جو حسن و عشق سے امن و اماں میں رہتے ہیں

صفی اورنگ آبادی

;

جو حسن و عشق سے امن و اماں میں رہتے ہیں
کہاں کے لوگ ہیں وہ کس جہاں میں رہتے ہیں

کلام پاک میں ہے ذکر حضرت یوسف
یہ حسن و عشق ہر اک داستاں میں رہتے ہیں

الٰہی اب سے حسینوں کو مہربان بنا
کہ تیرے بندے انہیں کی اماں میں رہتے ہیں

تمہیں تو ہو وہ جو درد و الم میں رکھتے ہو
ہمیں تو ہیں وہ جو آہ و فغاں میں رہتے ہیں

مجھے تو آپ سے مطلب ہے چاند سورج کون
وہ ان کو چاہیں گے جو آسماں میں رہتے ہیں

کدھر کدھر کے چلے آتے ہیں یہ بے وحدت
کہاں کہاں کے تمہارے مکاں میں رہتے ہیں

امید رنج الم ضبط درد صبر قلق
یہ سب ہمارے دل ناتواں میں رہتے ہیں

ہزاروں کام ہیں ایسے بھی دیکھ اے غافل
کہ بعد مرگ بھی لوگ اس جہاں میں رہتے ہیں

خدا سمجھ لے لگانے بجھانے والوں کو
یہ خواہ مخواہ یہاں میں وہاں میں رہتے ہیں

اشارے آپ کی ابرو کے کوئی کیا جانے
کہ کتنے زہر کے تیر اس کماں میں رہتے ہیں

ہماری خاص ترقی ہے خانہ ویرانی
کبھی مکاں میں تھے اب لا مکاں میں رہتے ہیں

اگر سمجھ ہے تو دل دے کے لطف زیست اٹھا
ہزار فائدے اس اک زیاں میں رہتے ہیں

خیال دوست میں رہتے ہیں اے صفیؔ جب تک
تو اس جہاں میں نہ ہم اس جہاں میں رہتے ہیں