جو حروف لکھ گیا تھا مری آرزو کا بچپن
انہیں دھو سکے نہ دل سے مری زندگی کے ساون
وہ جو دن بکھر چکے ہیں وہ جو خواب مر چکے ہیں
میں انہی کا ہوں مجاور مرا دل انہی کا مدفن
یہی ایک آرزو تھی کہ مجھے کوئی پکارے
سو پکارتی ہے اب تک مجھے اپنے دل کی دھڑکن
کوئی ٹوٹتا ستارہ مجھے کاش پھر صدا دے
کہ یہ کوہ و دشت و صحرا ہیں سکوت شب سے روشن
تری منزل وفا میں ہوا خود سے آشنا میں
تری یاد کا کرم ہے کہ یہی ہے دوست دشمن
ترے روبرو ہوں لیکن نہیں روشناس تجھ سے
تجھے دیکھنے نہ دے گی ترے دیکھنے کی الجھن
ظفرؔ آج دل کا عالم ہے عجب میں کس سے پوچھوں
وہ صبا کدھر سے آئی جو کھلا گئی یہ گلشن
غزل
جو حروف لکھ گیا تھا مری آرزو کا بچپن
یوسف ظفر