جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا
مگر دیکھو تو پھر کچھ آدمی سے ہو نہیں سکتا
محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
الگ کرنا رقیبوں کا الٰہی تجھ کو آساں ہے
مجھے مشکل کہ میری بیکسی سے ہو نہیں سکتا
کیا ہے وعدۂ فردا انہوں نے دیکھیے کیا ہو
یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
یہ مشتاق شہادت کس جگہ جائیں کسے ڈھونڈیں
کہ تیرا کام قاتل جب تجھی سے ہو نہیں سکتا
لگا کر تیغ قصہ پاک کیجئے دادخواہوں کا
کسی کا فیصلہ کر منصفی سے ہو نہیں سکتا
مرا دشمن بظاہر چار دن کو دوست ہے تیرا
کسی کا ہو رہے یہ ہر کسی سے ہو نہیں سکتا
پرسش کہوگے کیا وہاں جب یاں یہ صورت ہے
ادا اک حرف وعدہ نازکی سے ہو نہیں سکتا
نہ کہئے گو کہ حال دل مگر رنگ آشنا ہیں ہم
یہ ظاہر آپ کی کیا خامشی سے ہو نہیں سکتا
کیا جو ہم نے ظالم کیا کرے گا غیر منہ کیا ہے
کرے تو صبر ایسا آدمی سے ہو نہیں سکتا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جو اپنی نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا
نہیں گر تجھ پہ قابو دل ہے پر کچھ زور ہو اپنا
کروں کیا یہ بھی تو نا طاقتی سے ہو نہیں سکتا
نہ رونا ہے طریقے کا نہ ہنسنا ہے سلیقے کا
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا
ہوا ہوں اس قدر محجوب عرض مدعا کر کے
کہ اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا
غضب میں جان ہے کیا کیجئے بدلہ رنج فرقت کا
بدی سے کر نہیں سکتے خوشی سے ہو نہیں سکتا
مزا جو اضطراب شوق سے عاشق کو ہے حاصل
وہ تسلیم و رضا و بندگی سے ہو نہیں سکتا
خدا جب دوست ہے اے داغؔ کیا دشمن سے اندیشہ
ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا
غزل
جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا
داغؔ دہلوی