EN हिंदी
جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا | شیح شیری
jo ho ek bar wo har bar ho aisa nahin hota

غزل

جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا

ندا فاضلی

;

جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو ایسا نہیں ہوتا

ہر اک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں
سفر میں روز ہی منجدھار ہو ایسا نہیں ہوتا

کہانی میں تو کرداروں کو جو چاہے بنا دیجے
حقیقت بھی کہانی کار ہو ایسا نہیں ہوتا

کہیں تو کوئی ہوگا جس کو اپنی بھی ضرورت ہو
ہر اک بازی میں دل کی ہار ہو ایسا نہیں ہوتا

سکھا دیتی ہیں چلنا ٹھوکریں بھی راہگیروں کو
کوئی رستہ سدا دشوار ہو ایسا نہیں ہوتا