جو ہم انجام پر اپنی نظر اے باغباں کرتے
چمن میں آگ دے دیتے قفس کو آشیاں کرتے
اجل کمبخت آتی ہے نہیں در پر ترے ورنہ
ہم ایسی موت پر بھی زندگانی کا گماں کرتے
سہی افشائے راز عشق لیکن یہ مصیبت ہے
نہ کرتے سجدہ تیرے در پر آخر تو کہاں کرتے
ہمیں دیر و حرم میں قید رکھا بد نصیبی نے
جہاں سجدہ کی گنجائش نہ تھی سجدہ وہاں کرتے
اڑا لاتی ہوا جو کچھ خس و خاشاک زنداں میں
انہیں تنکوں پہ ہم اپنے نشیمن کا گماں کرتے
یہ اے فکر رہائی کس بلا میں ہم کو لا ڈالا
قفس میں دہکے آزادی سے ذکر آشیاں کرتے
غزل
جو ہم انجام پر اپنی نظر اے باغباں کرتے
شوکت تھانوی