EN हिंदी
جو ہیں مظلوم ان کو تو تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں | شیح شیری
jo hain mazlum un ko to taDapta chhoD dete hain

غزل

جو ہیں مظلوم ان کو تو تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں

عباس دانا

;

جو ہیں مظلوم ان کو تو تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں
یہ کیسا شہر ہے ظالم کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں

انا کے سکے ہوتے ہیں فقیروں کی بھی جھولی میں
جہاں ذلت ملے اس در پہ جانا چھوڑ دیتے ہیں

ہوا کیسا اثر معصوم ذہنوں پر کہ بچوں کو
اگر پیسے دکھاؤ تو کھلونا چھوڑ دیتے ہیں

اگر معلوم ہو جائے پڑوسی اپنا بھوکا ہے
تو غیرت مند ہاتھوں سے نوالہ چھوڑ دیتے ہیں

مہذب لوگ بھی سمجھے نہیں قانون جنگل کا
شکاری شیر بھی کوؤں کا حصہ چھوڑ دیتے ہیں

پرندوں کو بھی انساں کی طرح ہے فکر روزی کی
سحر ہوتے ہی اپنا آشیانہ چھوڑ دیتے ہیں

تعجب کچھ نہیں داناؔ جو بازار سیاست میں
قلم بک جائیں تو سچ بات لکھنا چھوڑ دیتے ہیں