جو گیا یہاں سے اسی مکان میں آئے گا
تھا ستارہ ٹوٹ کے آسمان میں آئے گا
کبھی خواب سا کبھی خوشبوؤں کا حجاب سا
بڑی مشکلوں سے وہ میرے دھیان میں آئے گا
اسے سوچنا نہ سمندروں کے دماغ سے
وہ گہر صدف کے فقط گمان میں آئے گا
نہیں آ سکا جو میں گل زمینوں کے جشن تک
تو غبار سا کسی سبز لان میں آئے گا
ابھی تر ہیں لب تری گفتگو کی مٹھاس سے
ترا ذائقہ بھی مری زبان میں آئے گا
ابھی پیڑ کو کسی سخت رت کا ہے سامنا
اگر اٹھ سکا تو بڑی اٹھان میں آئے گا
غزل
جو گیا یہاں سے اسی مکان میں آئے گا
مصور سبزواری