EN हिंदी
جو غم کے شعلوں سے بجھ گئے تھے ہم ان کے داغوں کا ہار لائے | شیح شیری
jo gham ke shoalon se bujh gae the hum un ke daghon ka haar lae

غزل

جو غم کے شعلوں سے بجھ گئے تھے ہم ان کے داغوں کا ہار لائے

حسن نعیم

;

جو غم کے شعلوں سے بجھ گئے تھے ہم ان کے داغوں کا ہار لائے
کسی کے گھر سے دیا اٹھایا کسی کے دامن کا تار لائے

یہ کوہساروں کی تربیت ہے کہ اپنا خیمہ جما ہوا ہے
ہزار طوفاں سناں چلائے ہزار فوج غبار لائے

کسے بتائیں کہ غم کے صحرا کو خلد دانش بنایا کیسے
کہاں سے آب رواں کو موڑا کہاں سے باد بہار لائے

ہر ایک راہ جنوں سے گزرے ہر ایک منزل سے کچھ اٹھایا
کہیں سے دامن میں غم سمیٹا کہیں سے جھولی میں پیار لائے

خلا کے ماتھے پہ ایک بندی نہ جانے کب سے چمک رہی تھی
اسے بھی فرق زمیں کی خاطر ہوا میں اڑ کر اتار لائے

جو اپنی دنیا بسا چکا ہے اسے بھی مشکل کا سامنا ہے
کہاں سے شمس و قمر اگائے کہاں سے لیل و نہار لائے

وہی شباہت وہی ادائیں مگر وہ لگتا ہے غیر جیسا
نعیمؔ یادوں کی انجمن میں نہ جانے کس کو پکار لائے