جو غم حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
جو غم حبیب کو پا گئے وہ غموں سے ہنس کے نکل گئے
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
جو نظر نظر سے گلے ملی تو بجھے چراغ بھی جل گئے
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
غم عیش و یاس و امید کا نہ اثر حیات پہ ہو سکا
مری روح عشق وہی رہی یہ لباس تھے جو بدل گئے
نہ ہے شاعرؔ اب غم نو بہ نو نہ وہ داغ دل نہ وہ تازگی
جنہیں اعتماد بہار تھا وہی پھول رنگ بدل گئے
غزل
جو غم حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
شاعر لکھنوی