جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے
کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے
اب اک ہجوم شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نہ ملا ہم سفر ہمارے ہوئے
کسی نے غم تو کسی نے مزاج غم بخشا
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو
اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے
وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے
غزل
جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
احمد فراز