EN हिंदी
جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے | شیح شیری
jo ghair the wo isi baat par hamare hue

غزل

جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے

احمد فراز

;

جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے

اب اک ہجوم شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نہ ملا ہم سفر ہمارے ہوئے

کسی نے غم تو کسی نے مزاج غم بخشا
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے

بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو
اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے

وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے