EN हिंदी
جو دور سے ہمیں اکثر خدا سا لگتا ہے | شیح شیری
jo dur se hamein akasr KHuda sa lagta hai

غزل

جو دور سے ہمیں اکثر خدا سا لگتا ہے

ستیہ نند جاوا

;

جو دور سے ہمیں اکثر خدا سا لگتا ہے
وہی قریب سے کچھ آشنا سا لگتا ہے

کبھی ہماری نگاہوں سے دیکھ لے اس کو
پھر اس کے بعد بتا تجھ کو کیسا لگتا ہے

تمام رات جلے دن کو سرد مہر بنے
بدن کا شہر بھی شہر انا سا لگتا ہے

وہ اس کی سہمی سی چاہت جفا کی چلمن میں
وہ بے وفا بھی ہمیں با وفا سا لگتا ہے

بکھرتے ٹوٹتے ان زیست کے مکانوں میں
وہ اک مکان ہمیں خوش نما سا لگتا ہے

صلیب و دار پہ چڑھ کر ہوئے ہیں لا فانی
یہ دست مرگ بھی دست دعا سا لگتا ہے