جو دور سے ہمیں اکثر خدا سا لگتا ہے
وہی قریب سے کچھ آشنا سا لگتا ہے
کبھی ہماری نگاہوں سے دیکھ لے اس کو
پھر اس کے بعد بتا تجھ کو کیسا لگتا ہے
تمام رات جلے دن کو سرد مہر بنے
بدن کا شہر بھی شہر انا سا لگتا ہے
وہ اس کی سہمی سی چاہت جفا کی چلمن میں
وہ بے وفا بھی ہمیں با وفا سا لگتا ہے
بکھرتے ٹوٹتے ان زیست کے مکانوں میں
وہ اک مکان ہمیں خوش نما سا لگتا ہے
صلیب و دار پہ چڑھ کر ہوئے ہیں لا فانی
یہ دست مرگ بھی دست دعا سا لگتا ہے

غزل
جو دور سے ہمیں اکثر خدا سا لگتا ہے
ستیہ نند جاوا