جو دوست تھا وہی دشمن ہے کیا کیا جائے
عجب خلش عجب الجھن ہے کیا کیا جائے
بسا ہوا ہے جو خوشبو کی طرح سانسوں میں
اسی سے اب مری ان بن ہے کیا کیا جائے
یگانگت کا وہ جذبہ ادھر رہا نہ ادھر
دعا سلام بھی رسماً ہے کیا کیا جائے
بہار میں بھی میسر گل مراد نہیں
یہ نا مرادئ دامن ہے کیا کیا جائے
فضائے صحن چمن شعلہ بار ہے لیکن
یہیں ہمارا نشیمن ہے کیا کیا جائے
مجھے مٹا کے رہے گی یہ رات ہجر کی رات
ازل سے یہ مری دشمن ہے کیا کیا جائے
چھپاؤں کیسے وقارؔ اپنے دل کے داغوں کو
جو داغ ہے وہی روشن ہے کیا کیا جائے

غزل
جو دوست تھا وہی دشمن ہے کیا کیا جائے
وقار مانوی