EN हिंदी
جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی | شیح شیری
jo din tha ek musibat to raat bhaari thi

غزل

جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی

امجد اسلام امجد

;

جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی
گزارنی تھی مگر زندگی، گزاری تھی

سواد شوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے
نہ مجھ کو اپنی خبر تھی نہ کچھ تمہاری تھی

لرزتے ہاتھوں سے دیوار لپٹی جاتی تھی
نہ پوچھ کس طرح تصویر وہ اتاری تھی

جو پیار ہم نے کیا تھا وہ کاروبار نہ تھا
نہ تم نے جیتی یہ بازی نہ میں نے ہاری تھی

طواف کرتے تھے اس کا بہار کے منظر
جو دل کی سیج پہ اتری عجب سواری تھی

تمہارا آنا بھی اچھا نہیں لگا مجھ کو
فسردگی سی عجب آج دل پہ طاری تھی

کسی بھی ظلم پہ کوئی بھی کچھ نہ کہتا تھا
نہ جانے کون سی جاں تھی جو اتنی پیاری تھی

ہجوم بڑھتا چلا جاتا تھا سر محفل
بڑے رسان سے قاتل کی مشق جاری تھی

تماشا دیکھنے والوں کو کون بتلاتا
کہ اس کے بعد انہی میں کسی کی باری تھی

وہ اس طرح تھا مرے بازوؤں کے حلقے میں
نہ دل کو چین تھا امجدؔ نہ بے قراری تھی