EN हिंदी
جو دل ساتھ چھٹنے سے گھبرا رہا ہے | شیح شیری
jo dil sath chhuTne se ghabra raha hai

غزل

جو دل ساتھ چھٹنے سے گھبرا رہا ہے

آرزو لکھنوی

;

جو دل ساتھ چھٹنے سے گھبرا رہا ہے
وہ چھٹتا نہیں اور پاس آ رہا ہے

ہمیشہ کو پھولے پھلے گا یہ گلشن
ابھی دیکھنے کو تو مرجھا رہا ہے

ہر اک شام کہتی ہے پھر صبح ہوگی
اندھیرے میں سورج نظر آ رہا ہے

بڑھی جا رہی ہے اگر دھوپ آگے
تو سایہ بھی دوڑا چلا جا رہا ہے

ستارے بنیں گے چمک دار آنسو
یہ رونا ہنسی کی خبر لا رہا ہے

اگر دکھ نہیں ہے نہیں پھر ہے سکھ بھی
زمانہ یہ پہچان بتلا رہا ہے

تھکن آرزوؔ کہتی ہے راستے کی
کہ آرام بھی ساتھ ساتھ آ رہا ہے