جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
خلش کیوں ہو تپش کیوں ہو قلق کیوں ہو فغاں کیوں ہو
مزا آتا نہیں تھم تھم کے ہم کو رنج و راحت کا
خوشی ہو غم ہو جو کچھ ہو الٰہی ناگہاں کیوں ہو
یہ مصرع لکھ دیا ظالم نے میری لوح تربت پر
جو ہو فرقت کی بیتابی تو یوں خواب گراں کیوں ہو
ہمیشہ آدمی کا آدمی غم خوار ہوتا ہے
یہی بے اعتباری ہو تو کوئی راز داں کیوں ہو
بہت نکلیں گے روز حشر تیرے جور کے خواہاں
ستم کا حوصلہ دنیا میں صرف امتحاں کیوں ہو
غضب آیا ستم ٹوٹا قیامت ہو گئی برپا
یہ پوچھا تھا کہ تم آزردہ مجھ سے میری جاں کیوں ہو
انہیں کو رنجش بے جا ہے لیکن ہے تو ہم سے ہے
محبت گر نہ ہو باہم شکایت درمیاں کیوں ہو
گئے ٹھکرا کے مجھ کو اور پھر کہتے گئے یہ بھی
نصیب دشمناں تو پائمال آسماں کیوں ہو
نئی تاکید ہے ضبط محبت کی وہ کہتے ہیں
جگر ہو تو فغاں کیوں ہو دہن ہو تو زباں کیوں ہو
شریک دور مے بزم عدو میں خاک ہوتے ہم
کسی نے رات بھر اتنا نہ پوچھا تم یہاں کیوں ہو
تحمل کر سکے کیا حسن نازک ان نگاہوں کا
اسے میں نے چھپایا ہے وگرنہ وہ نہاں کیوں ہو
خدا شاہد خدا شاہد ہے کیوں کہتے ہو وعدوں پر
خدا کو کیا غرض میرے تمہارے درمیاں کیوں ہو
جگر سے کم نہیں اے چارہ گر داغ جگر مجھ کو
جو پیدا کی ہو مر مر کے وہ دولت رائیگاں کیوں ہو
نوید جاں فزا ہے کیا خبر قاتل کے آنے کی
بتاؤ تو سہی تم داغؔ ایسے شادماں کیوں ہو
غزل
جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
داغؔ دہلوی