جو دل پہ گزرتی ہے وہ سمجھا نہیں سکتے
ہم دیکھنے والوں کو نظر آ نہیں سکتے
بے قید و رسوم آئی ہیں گلشن میں بہاریں
اب ہاتھ گریباں کی طرف جا نہیں سکتے
رنگینئ مستقبل روشن ہے نظر میں
ہم تلخی ماحول سے گھبرا نہیں سکتے
مغرور نہ ہو فضل خزاں آ کے چمن میں
ایسے بھی ہیں کچھ پھول جو مرجھا نہیں سکتے
مانا وہ مجھے اپنی نگاہوں سے گرا دیں
لیکن مرے احساس کو ٹھکرا نہیں سکتے
ارباب خرد لاکھ سبک گام ہوں لیکن
بے فیض جنوں راہ طلب پا نہیں سکتے
مانا کہ ترے لطف و کرم خواب ہیں لیکن
ہر شخص کو یہ خواب نظر آ نہیں سکتے
تفسیر دو عالم ہے شکیلؔ اپنا تغزل
میدان غزل چھوڑ کے ہم جا نہیں سکتے
غزل
جو دل پہ گزرتی ہے وہ سمجھا نہیں سکتے
شکیل بدایونی