جو دل مرا نہیں مجھے اس دل سے کیا غرض
چلنی نہ ہو جو راہ تو منزل سے کیا غرض
ڈوبوں گا گر ہے میرے مقدر میں ڈوبنا
غواص بحر عشق کو ساحل سے کیا غرض
وہ دل کو دیکھتا ہے نہ اعمال ظاہری
لیلیٰ کے خواست گار کو محمل سے کیا غرض
سنتا ہے کون عاشقوں کی آہ و زاریاں
گوش چمن کو شور عنادل سے کیا غرض
ہم اس کے شیفتہ ہیں رقیبوں سے واسطہ
گل سے غرض ہے فوج عنادل سے کیا غرض
مرتا ہوں اور جا نہیں سکتا سوئے عدم
مجھ ناتواں کو طوق و سلاسل سے کیا غرض
کیوں در پئے تلاش ہیں احباب و اقربا
پرویںؔ شہید ناز کو قاتل سے کیا غرض
غزل
جو دل مرا نہیں مجھے اس دل سے کیا غرض
پروین ام مشتاق