EN हिंदी
جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں | شیح شیری
jo dil mein hain dagh jal rahe hain

غزل

جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں

سلیم احمد

;

جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں
مسجد میں چراغ جل رہے ہیں

جس آگ سے دل سلگ رہے تھے
اب اس سے دماغ جل رہے ہیں

بچپن مرا جن میں کھیلتا تھا
وہ کھیت وہ باغ جل رہے ہیں

چہرے پہ ہنسی کی روشنی ہے
آنکھوں میں چراغ جل رہے ہیں

رستوں میں وہ آگ لگ گئی ہے
قدموں کے سراغ جل رہے ہیں