جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں
مسجد میں چراغ جل رہے ہیں
جس آگ سے دل سلگ رہے تھے
اب اس سے دماغ جل رہے ہیں
بچپن مرا جن میں کھیلتا تھا
وہ کھیت وہ باغ جل رہے ہیں
چہرے پہ ہنسی کی روشنی ہے
آنکھوں میں چراغ جل رہے ہیں
رستوں میں وہ آگ لگ گئی ہے
قدموں کے سراغ جل رہے ہیں
غزل
جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں
سلیم احمد