EN हिंदी
جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل | شیح شیری
jo dil ko dije to dil mein KHush ho kare hai kis kis tarah se halchal

غزل

جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل

نظیر اکبرآبادی

;

جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل
اگر نہ دیجے تو وو ہیں کیا کیا جتاوے خفگی عتاب اکڑ بل

اگر یہ کہئے کہ ہم ہیں بے کل ذرا گلے مل تو ہنس کے ظالم
دکھاوے ہیکل اٹھا کے یعنی بلا سے میری مجھے تو ہے کل

جو اس بہانے سے ہاتھ پکڑیں کہ دیکھ دل کی دھڑک ہمارے
تو ہاتھ چھپ سے چھڑا لے کہہ کر مجھے نہیں ہے کچھ اس کی اٹکل

جو چھپ کے دیکھیں تو تاڑ جاوے وگر صریحاً تو دیکھو پھرتی
کہ آتے آتے نگاہ رخ تک چھپا لے منہ کو الٹ کے آنچل

کرے جو وعدہ تو اس طرح کا کہ دل کو سنتے ہی ہو تسلی
جو سوچیے پھر تو کیسا وعدہ فقط بہانہ فریب اور چھل

جو دل کو بوسے کے بدلے دیجے تو ہنس کے لیلیٰ بہت خوشی سے
جو بوسہ مانگو تو پھر یہ نقشا کبھی تو آج اور کبھی کہے کل

نہ جل میں آوے نہ بھڑ کے نکلے نہ پاس بیٹھے نظیرؔ اک دم
بڑا ہی پر فن بڑا ہی سیانا بڑا ہی شوخ اور بڑا ہی چنچل