جو دل کا راز بے آہ و فغاں کہنا ہی پڑتا ہے
تو پھر اپنے قفس کو آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
تجھے اے طائر شاخ نشیمن کیا خبر اس کی
کبھی صیاد کو بھی باغباں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں ہر کام چلتا ہے سلیقے سے
یہاں پتھر کو بھی لعل گراں کہنا ہی پڑتا ہے
بہ فیض مصلحت ایسا بھی ہوتا ہے زمانے میں
کہ رہزن کو امیر کارواں کہنا ہی پڑتا ہے
مروت کی قسم تیری خوشی کے واسطے اکثر
سراب دشت کو آب رواں کہنا ہی پڑتا ہے
زبانوں پر دلوں کی بات جب ہم لا نہیں سکتے
جفا کو پھر وفا کی داستاں کہنا ہی پڑتا ہے
نہ پوچھو کیا گزرتی ہے دل خوددار پر اکثر
کسی بے مہر کو جب مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
غزل
جو دل کا راز بے آہ و فغاں کہنا ہی پڑتا ہے
جگن ناتھ آزادؔ