جو دیکھتا ہے مجھے آئینہ کے اندر سے
وہ کون ہے کوئی پوچھے بھی اس ستم گر سے
سکوت ٹوٹ گیا خامشی کے جنگل کا
مری صدائیں اٹھیں اس طرح مرے گھر سے
میں ایک تنکے کی صورت ہمیشہ بہتا رہا
مجھے مفر نہ ملا وقت کے سمندر سے
مرے دیار میں ماضی کی جو تھیں تصویریں
سبھوں کو توڑ دیا میں نے آج پتھر سے
تمام رات کوئی بھی نہ تھا مرے گھر میں
لپٹ کے سوئی تھی تنہائی میرے بستر سے
غزل
جو دیکھتا ہے مجھے آئینہ کے اندر سے
شاہد کلیم