EN हिंदी
جو دیکھے تھے وہ سارے خواب رخصت ہو گئے ہیں | شیح شیری
jo dekhe the wo sare KHwab ruKHsat ho gae hain

غزل

جو دیکھے تھے وہ سارے خواب رخصت ہو گئے ہیں

رئیس انصاری

;

جو دیکھے تھے وہ سارے خواب رخصت ہو گئے ہیں
ہمارے سب ادب آداب رخصت ہو گئے ہیں

یہ دنیا جس گھرانے کے سبب تو نے بنائی
تری دنیا سے وہ بے آب رخصت ہو گئے ہیں

نگہباں تھے جو ساحل پر ہماری کشتیوں کے
وہ سب کے سب سر گرداب رخصت ہو گئے ہیں

پڑا ہے جب قبیلے پر ہمارے وقت کوئی
ہمارے معتبر احباب رخصت ہو گئے ہیں

طلوع صبح کی افواہ پر محفل سے اس کی
ہزاروں انجم و مہتاب رخصت ہو گئے ہیں