جو دیکھے تھے وہ سارے خواب رخصت ہو گئے ہیں
ہمارے سب ادب آداب رخصت ہو گئے ہیں
یہ دنیا جس گھرانے کے سبب تو نے بنائی
تری دنیا سے وہ بے آب رخصت ہو گئے ہیں
نگہباں تھے جو ساحل پر ہماری کشتیوں کے
وہ سب کے سب سر گرداب رخصت ہو گئے ہیں
پڑا ہے جب قبیلے پر ہمارے وقت کوئی
ہمارے معتبر احباب رخصت ہو گئے ہیں
طلوع صبح کی افواہ پر محفل سے اس کی
ہزاروں انجم و مہتاب رخصت ہو گئے ہیں
غزل
جو دیکھے تھے وہ سارے خواب رخصت ہو گئے ہیں
رئیس انصاری