جو دشت خوابوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
وہ جاگنے پہ مرا گھر دکھائی دیتا ہے
ہماری خامہ طرازی سے بچ کے رہیے حضور
کہ دست مست میں خنجر دکھائی دیتا ہے
جو دور سے اسے دیکھو تو چاند جیسا لگے
قریب جاؤ تو پتھر دکھائی دیتا ہے
صنم تراش گرسنہ ہے ان دنوں شاید
کہ ہر مجسمہ لاغر دکھائی دیتا ہے
نہ جس کی شکل ہے اس کی نہ جس کی عمر اس کی
وہ مجھ کو شیشے میں اکثر دکھائی دیتا ہے
ہے اس کا موجب تعمیر کوئی جرم ضرور
جو سب سے اونچا نیا گھر دکھائی دیتا ہے
رہ فرار خلاؤں میں بھی نہیں ملتی
بس ایک گنبد بے در دکھائی دیتا ہے
ہے جس کی ٹھوکروں میں آب زندگی وامقؔ
وہ تشنگی کا سمندر دکھائی دیتا ہے
غزل
جو دشت خوابوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
وامق جونپوری