EN हिंदी
جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا | شیح شیری
jo dagh hai ishq-e-dil-nashin ka jo dil-nashin hain dil-e-hazin ka

غزل

جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا

قدر بلگرامی

;

جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا
وہی ہے تمغہ مری جبیں کا وہی سلیماں مرے نگیں کا

گئی نہ مر کر بھی کینہ خواہی ملا کے مٹی میں کی تباہی
مری طرح سے کہیں الٰہی فلک بھی پیوند ہو زمیں کا

تڑپ نہ پوچھو دل حزیں کی کہوں میں تم سے کہاں کہاں کی
اسی سے ہے گردش آسماں کی اسی سے ہے زلزلہ زمیں کا

جہان سر پر اٹھا رہا ہوں جنوں میں دھومیں مچا رہا ہوں
جو دشت میں خاک اڑا رہا ہوں دماغ گردوں پہ ہے زمیں کا

کرم میں ہم کو غضب میں ہم کو کیا جو ممتاز سب میں ہم کو
تمہاری دشنام و لب میں ہم کو مزہ ملا زہر و انگبیں کا

یہ لاغری اب ہے خار دامن کہ اٹھ نہیں سکتا بار دامن
جو پاؤں اپنا ہے تار دامن تو ہاتھ ہے تار آستیں کا

میان محشر ملالتوں سے میں شمع ہوں دل کی حالتوں سے
کہ پاؤں تک سو خجالتوں سے عرق بہا ہے مری جبیں کا

سخن کو قدرؔ اوج دے زباں سے کہ تخم افشاں ہو لا مکاں سے
کیا ہے ناسخؔ نے آسماں سے بلند تر رتبہ اس زمیں کا