EN हिंदी
جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا | شیح شیری
jo chehre ke bahar hai wo andar na milega

غزل

جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا

شمیم انور

;

جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا
چٹکی میں سمندر کی سمندر نہ ملے گا

دکھ ہوگا سوا دکھ کو نمائش میں سجا کے
ہر چہرہ پہ ہمدردی کا لشکر نہ ملے گا

سوکھے ہوئے تالاب کی کیا جیب تلاشی
صدیوں کا وہ پھینکا ہوا پتھر نہ ملے گا

وہ کتنی دفعہ توڑ کے پھر جوڑ گیا ہے
انگشت نظر سے تمہیں چھو کر نہ ملے گا

آنکھوں کو کہیں دور خلا میں نہ اچھالو
کھویا ہوا سپنوں کا سمندر نہ ملے گا