جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا
چٹکی میں سمندر کی سمندر نہ ملے گا
دکھ ہوگا سوا دکھ کو نمائش میں سجا کے
ہر چہرہ پہ ہمدردی کا لشکر نہ ملے گا
سوکھے ہوئے تالاب کی کیا جیب تلاشی
صدیوں کا وہ پھینکا ہوا پتھر نہ ملے گا
وہ کتنی دفعہ توڑ کے پھر جوڑ گیا ہے
انگشت نظر سے تمہیں چھو کر نہ ملے گا
آنکھوں کو کہیں دور خلا میں نہ اچھالو
کھویا ہوا سپنوں کا سمندر نہ ملے گا
غزل
جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا
شمیم انور