جو بوئے زندگی مجھے کرن کرن سے آئی ہے
حقیقتاً وہ آپ ہی کے پیرہن سے آئی ہے
ہمارے جسم و روح کو سرور دے گئی وہی
نسیم خوش گوار جو ترے بدن سے آئی ہے
یہ کون شخص مر گیا یہ کس کا ہے کفن کہو؟
کہ زندگی کی بو مجھے اسی کفن سے آئی ہے
طریقت نبرد میں ہمارا سلسلہ ہے اور!
یہ خود کشی کی رسم بد تو کوہ کن سے آئی ہے
کلی تو پھر کلی ہوئی مہک اٹھے ہیں خار بھی
میں جانتا ہوں یہ نسیم کس چمن سے آئی ہے
کھلے رکھے ہیں میں نے سارے رنگ و بو کے راستے
مرے چمن کی یہ پھبن چمن چمن سے آئی ہے
میں صابرؔ سخن طراز کیوں کسی کو دوش دوں
کہ میرے سر پہ ہر بلا مرے سخن سے آئی ہے
غزل
جو بوئے زندگی مجھے کرن کرن سے آئی ہے
صابر آفاقی