جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
دوئی چھوڑ بندے خدا ایک ہی ہے
یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے
اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے
ہیں اپنی ہی نیت کے پھل تلخ و شیریں
وگرنہ مزہ درد کا ایک ہی ہے
بھرے رنگ جتنے بدلتا زمانہ
مگر عشق کا ماجرا ایک ہی ہے
سبھی شکوے مٹتے ہیں چشم کرم سے
مرض ہوں ہزاروں دوا ایک ہی ہے
دو رنگی دنیا سے کیا کام ہم کو
کہ فردوس دل کی فضا ایک ہی ہے
بناتے ہیں بے خود سبھی حسن والے
ٹھکانے الگ راستہ ایک ہی ہے
کوئی سمجھے نغمہ کوئی سمجھے نالہ
مرے ساز دل کی صدا ایک ہی ہے
وہ دار و رسن ہوں کہ ہوں زہر و خنجر
بہانے ہزاروں قضا ایک ہی ہے
محبت کرے اور ہو بے غرض بھی
لو پھر آرزوؔ آپ کا ایک ہی ہے
غزل
جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
آرزو لکھنوی