EN हिंदी
جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے | شیح شیری
jo but hai yahan apni ja ek hi hai

غزل

جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے

آرزو لکھنوی

;

جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
دوئی چھوڑ بندے خدا ایک ہی ہے

یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے
اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے

ہیں اپنی ہی نیت کے پھل تلخ و شیریں
وگرنہ مزہ درد کا ایک ہی ہے

بھرے رنگ جتنے بدلتا زمانہ
مگر عشق کا ماجرا ایک ہی ہے

سبھی شکوے مٹتے ہیں چشم کرم سے
مرض ہوں ہزاروں دوا ایک ہی ہے

دو رنگی دنیا سے کیا کام ہم کو
کہ فردوس دل کی فضا ایک ہی ہے

بناتے ہیں بے خود سبھی حسن والے
ٹھکانے الگ راستہ ایک ہی ہے

کوئی سمجھے نغمہ کوئی سمجھے نالہ
مرے ساز دل کی صدا ایک ہی ہے

وہ دار و رسن ہوں کہ ہوں زہر و خنجر
بہانے ہزاروں قضا ایک ہی ہے

محبت کرے اور ہو بے غرض بھی
لو پھر آرزوؔ آپ کا ایک ہی ہے