جو بھی یہاں ہوا وہ بہت ہی برا ہوا
ہر آدمی کا ذہن ہے اب تک جلا ہوا
مٹی کو سونگھنے سے کوئی فائدہ نہیں
میں جا رہا ہوں نقش وفا چھوڑتا ہوا
روزن بنا رہے ہیں خلا میں کرن کے تیر
سورج اسی لیے ہے زمیں پر جھکا ہوا
ہم سہہ رہے ہیں اپنے عزیزوں کے درد و غم
آیا جو دست و پا لیے بے دست و پا ہوا
اک شخص میرے ساتھ سفر میں رہا مگر
منزل قریب آئی تو مجھ سے جدا ہوا
مجھ کو کسی کی بات کی پروا نہیں ابھی
میں جی رہا ہوں شہر میں تنہا تو کیا ہوا
افسوس کی نہیں یہ تعجب کی بات ہے
کیسے گزر گیا وہ مجھے دیکھتا ہوا
تم نے مرے لیے تو بہت کچھ کیا مگر
کیا تم کو اے حصیرؔ کوئی فائدہ ہوا

غزل
جو بھی یہاں ہوا وہ بہت ہی برا ہوا
حصیر نوری