جو بھی تخت پہ آ کر بیٹھا اس کو یزداں مان لیا
آپ بہت ہی دیدہ ور تھے موسم کو پہچان لیا
جب بھی تھکن نے کاٹ کے پھینکا دشت گزیدہ قدموں کو
جلتی ریت پہ کھال بچھائی دھوپ کا خیمہ تان لیا
اپنی انا کا باغی دریا وصل سے کیا سرشار ہوا
اس کا نشاں بھی ہاتھ نہ آیا سارا سمندر چھان لیا
قسمت کے بازار سے بس اک چیز ہی تو لے سکتے تھے
تم نے تاج اٹھایا میں نے غالبؔ کا دیوان لیا
ذات صفات سے عاری ہو تو کیسا تعاون خارج کا
آنکھ تو تھی نا بینا ناحق سورج کا احسان لیا
غزل
جو بھی تخت پہ آ کر بیٹھا اس کو یزداں مان لیا
سید نصیر شاہ