جو بھی سوکھے گل کتابوں میں ملے اچھے لگے
ہوں وہ لمحہ یا بشر چھوٹے ہوئے اچھے لگے
برگ و گل پہ تو ہمیں شبنم بڑی اچھی لگی
اشک لیکن کب ترے رخسار پہ اچھے لگے
دل کشی تھی انسیت تھی یا محبت یا جنون
سب مراحل تجھ سے جو منسوب تھے اچھے لگے
کاغذی کشتی کا رشتہ خوب ہے آلوکؔ سے
جھوٹھے جتنے بھی تھے وعدے آپ کے اچھے لگے
غزل
جو بھی سوکھے گل کتابوں میں ملے اچھے لگے
آلوک یادو