EN हिंदी
جو بھی سوکھے گل کتابوں میں ملے اچھے لگے | شیح شیری
jo bhi sukhe gul kitabon mein mile achchhe lage

غزل

جو بھی سوکھے گل کتابوں میں ملے اچھے لگے

آلوک یادو

;

جو بھی سوکھے گل کتابوں میں ملے اچھے لگے
ہوں وہ لمحہ یا بشر چھوٹے ہوئے اچھے لگے

برگ و گل پہ تو ہمیں شبنم بڑی اچھی لگی
اشک لیکن کب ترے رخسار پہ اچھے لگے

دل کشی تھی انسیت تھی یا محبت یا جنون
سب مراحل تجھ سے جو منسوب تھے اچھے لگے

کاغذی کشتی کا رشتہ خوب ہے آلوکؔ سے
جھوٹھے جتنے بھی تھے وعدے آپ کے اچھے لگے