جو بھی نکلے تری آواز لگاتا نکلے
ایسے حالات میں اب گھر سے کوئی کیا نکلے
اس کے لہجہ میں سرابوں کی عجب رونق ہے
این ممکن ہے وو تپتا ہوا صحرا نکلے
ہر طرف خواب وہی خواب وہی اک چہرہ
اب کسی طور میرے گھر سے یے ملبہ نکلے
دشت والوں کو بتاؤ کی یہاں میں بھی ہوں
کیا پتہ مجھ سے ہی ان کا کوئی رستہ نکلے
بس اسی آس میں بیٹھا ہوں سر صحرا میں
کوئی بادل مجھے آواز لگاتا نکلے
کاش ایسا ہو تیرے شہر میں پیاسا آؤں
اور ترے قدموں سے ہو کر کوئی دریا نکلے
رقص کرتے تھے ترے ہاتھوں پے کتنے عالم
اب تو آنکھوں سے مری رنگ حنا کا نکلے
تیرے ہونے پے بھی اک ڈر سا لگا رہتا ہے
کیسے اس جی سے ترے ہجر کا دھڑکا نکلے

غزل
جو بھی نکلے تری آواز لگاتا نکلے
دنیش نائیڈو