جو بھی مل جاتا ہے گھر بار کو دے دیتا ہوں
یا کسی اور طلب گار کو دے دیتا ہوں
دھوپ کو دیتا ہوں تن اپنا جھلسنے کے لئے
اور سایہ کسی دیوار کو دے دیتا ہوں
جو دعا اپنے لئے مانگنی ہوتی ہے مجھے
وہ دعا بھی کسی غم خوار کو دے دیتا ہوں
مطمئن اب بھی اگر کوئی نہیں ہے نہ سہی
حق تو میں پہلے ہی حق دار کو دے دیتا ہوں
جب بھی لکھتا ہوں میں افسانا یہی ہوتا ہے
اپنا سب کچھ کسی کردار کو دے دیتا ہوں
خود کو کر دیتا ہوں کاغذ کے حوالے اکثر
اپنا چہرہ کبھی اخبار کو دیتا ہوں
میری دوکان کی چیزیں نہیں بکتی نظمیؔ
اتنی تفصیل خریدار کو دے دیتا ہوں
غزل
جو بھی مل جاتا ہے گھر بار کو دے دیتا ہوں
اختر نظمی