EN हिंदी
جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا | شیح شیری
jo bhi kahna ho wahan meri zabani kahna

غزل

جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا

شمیم فاروقی

;

جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا
لوگ کچھ بھی کہیں تم آگ کو پانی کہنا

آج وہ شخص زمانے میں ہے یکتا کہہ دو
جب کوئی دوسرا مل جائے تو ثانی کہنا

غم اگر پلکوں پہ تھم جائے تو آنسو کہیو
اور بہہ جائے تو موجوں کی روانی کہنا

جتنا جی چاہے اسے آج حقیقت کہہ لو
کل اسے میری طرح تم بھی کہانی کہنا

اب تو دھندلا گیا یادوں کا ہر اک نقش شمیمؔ
پھر وہ دے جائے کوئی اپنی نشانی کہنا