جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا
لوگ کچھ بھی کہیں تم آگ کو پانی کہنا
آج وہ شخص زمانے میں ہے یکتا کہہ دو
جب کوئی دوسرا مل جائے تو ثانی کہنا
غم اگر پلکوں پہ تھم جائے تو آنسو کہیو
اور بہہ جائے تو موجوں کی روانی کہنا
جتنا جی چاہے اسے آج حقیقت کہہ لو
کل اسے میری طرح تم بھی کہانی کہنا
اب تو دھندلا گیا یادوں کا ہر اک نقش شمیمؔ
پھر وہ دے جائے کوئی اپنی نشانی کہنا
غزل
جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا
شمیم فاروقی