جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح
بکھر گئے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پروں کی طرح
شکستہ روح ہے جسموں کے گنبدوں میں اسیر
ہیں میرے دور کے انسان مقبروں کی طرح
ڈرو تم ان سے کہ وہ راز دار طوفاں ہیں
جو ایک عمر سے چپ ہیں سمندروں کی طرح
پڑا جو وقت تو وہ پھر نظر نہیں آئے
یقیں کریں کہ جو ملتے تھے دلبروں کی طرح
حقیقتوں کا کریں سامنا دلیری سے
نہ یہ کہ موند لیں آنکھیں کبوتروں کی طرح
غزل
جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح
اسد جعفری