EN हिंदी
جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح | شیح شیری
jo bazm-e-dahr mein kal tak the KHud-suron ki tarah

غزل

جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح

اسد جعفری

;

جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح
بکھر گئے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پروں کی طرح

شکستہ روح ہے جسموں کے گنبدوں میں اسیر
ہیں میرے دور کے انسان مقبروں کی طرح

ڈرو تم ان سے کہ وہ راز دار طوفاں ہیں
جو ایک عمر سے چپ ہیں سمندروں کی طرح

پڑا جو وقت تو وہ پھر نظر نہیں آئے
یقیں کریں کہ جو ملتے تھے دلبروں کی طرح

حقیقتوں کا کریں سامنا دلیری سے
نہ یہ کہ موند لیں آنکھیں کبوتروں کی طرح